سیاسی وفکری اشرافیہ

اصل سوال اہداف کا ہے۔ حکمت عملی اہم ہے مگر ایک ضمنی موضوع۔

بازارِ سیاست میں آج کیا جنس برائے فروخت ہے؟ اہلِ سیاست باہم دست وگریباں ہیں اور میڈیا ان کی تجارت کررہا ہے۔ ایک بازیچہ اطفال ہے اور طفلانِ سیاست کھلاڑی۔غور کیجیے تو ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے۔ قحط الرجال۔ سیاست تو سیال شے ہے‘ جس برتن میں ڈالیں وہی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ یہ صورت گری اہلِ سیاست کا کام ہے۔ موضوعات کا تعین وہ کرتے ہیں اور وہی یہ طے کرتے ہیں کہ قومی ایجنڈا کیا ہونا چاہیے۔ آج دو باتیں واضح ہیں۔ اہلِ سیاست میں کوئی نہیں جو قوم کو تبدیلی کا ایجنڈا دے سکے۔ دوسرا یہ کہ لیڈر بھی کوئی نہیں۔ میڈیا ان کے لیے موضوعات کا انتخاب کرتا ہے اور وہ بے تکان بولتے جاتے ہیں۔ میڈیا تو تماشا گاہ ہے۔ وہ نچاتا ہے اور سیاست دان ناچنے لگتے ہیں۔ میں سوچتا اور حیرت میں ڈوب جاتا ہوں کہ یہ گالیاں کھاکر بھی بدمزہ نہیں ہوتے۔ میڈیا کے لب اتنے شیریں ہیں کہ اگلے روز پھر آجاتے ہیں‘ اسی سلوک کے لیے۔

ہمارا بحران معمولی نہیں۔ پاکستان امریکا نہیں ہے کہ بحث کا دائرہ صحت کی انشورنس اور ملازمت کے مواقع تک محدود ہو۔ لوگ صدر کا انتخاب کریں تو انہی دائروں میں سوچیں۔ یہاں صورت حال مختلف ہے۔ ہم مسائلستان میں جی رہے ہیں ۔ سماج کے تارپود بکھر چکے۔ ریاست کا وجود کہیں ہے اور کہیں نہیں۔ حکومت ناکامی کی نہ ختم ہونے والی ایک داستان ہے۔ مذہب تعمیر ِسیرت کے بجائے شخصی مفادات کے لیے استعمال ہورہا ہے۔ علاقائیت ہے‘ لسانیت ہے اور ان سب پر مستزاد ایک نوجوان نسل جس کے پاس کوئی روزگار ہے نہ منزل کا سراغ۔۔۔تن ہمہ داغ داغ شد‘ پنبہ کجا کجا نہم۔

بدقسمتی یہ ہے کہ ان حالات کا سامنا کرنے کے لیے کوئی محمد علی جناح نہیں۔ صحیح ہے کہ قائد اعظم روز روز پیدا نہیں ہوتے‘ لیکن ان کے نقوشِ قدم تو موجود ہیں۔ کوئی ان پر ہی پاﺅں رکھ دے؟ عمران خان کے موضوعات دیکھیے: نواز شریف‘ آصف زرداری اور اب سرفہرست مولانا فضل الرحمن۔ دوسروں کا معاملہ بھی مختلف نہیں۔ اب ایک نظر تحریک پاکستان پر نظر ڈالیے۔ قائد اعظم کے چودہ نکات۔ دلی تجاویز‘ میثاق لکھنو۔۔۔مسائل زیر بحث ہیں۔ متحدہ قومیت اور مسلم قومیت جیسے موضوعات پر گفتگو ہورہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے اہلِ سیاست بیدار ہیں۔ آج چیلنج ۷۴۹۱ءسے بڑا ہے۔ فکری تشخص سے لے کر اقتصادی وجود تک‘ ہر چیز خطرے میں ہے۔ ریاست اور سماج دونوں ان گنت خطرات سے دوچار ہیں۔ اہلِ سیاست کے بیانات میں ان کا کہیں گزر نہیں۔

میڈیا اور سیاست ہمیشہ ہم رکاب رہے ہیں۔ میڈیا بھی ان سیاست دانوں کو اہمیت دیتا ہے‘ جو تماشا دکھانے کا گُر جانتے ہیں۔ہمارے ٹاک شوز میں جو سیاست دان سب سے زیادہ دکھائی دیتے ہیں وہ شیخ رشید ہیں۔ ان کی سیاسی متاع کیا ہے؟ کوئی جماعت؟ کوئی حلقہ انتخاب؟ کوئی نظریہ؟ صرف ان کی مثال ہی پیش نظر ہو تو میڈیا کی ترجیحات سمجھ میں آجاتی ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ میڈیا کا ایک تقابل بھی اس عہد کی صحافت سے کیا جائے۔کم وبیش سب لکھنے والوں کی تحریریں اب محفوظ ہیں۔وہ کون لوگ تھے جو مسلمانوں کو درپیش مسائل پر گفتگو کررہے تھے؟ علامہ اقبال‘ ابوالکلام آزاد‘ حسین احمد مدنی‘ محمد علی جوہر اور نسبتاً کم سنوں میں ابوالاعلیٰ مودودی ۔علم اور اسلوب تو ایک طرف‘ موضوعات کا انتخاب بھی دیکھیے تو حیرت ہوتی ہے۔آج زوال کا یہ عالم ہے کہ محاسن عیب بن گئے۔ میں ایک بڑے قومی اخبار میں لکھتا تھا۔ ایک دفعہ کالم روک لیا گیا۔ وجہ جاننے کی کوشش کی تو ایک لکھا ہوا جملہ سنایا گیا:”کالم نگار ابوالکلام بننے کی کوشش کرتا ہے۔“ آج اس واقعے کو کئی برس ہوگئے لیکن تاسف کے ساتھ یاد کرتا ہوں: ایک نوجوان لکھنے والا اگر ابوالکلام بننے کی کوشش کرتا ہے تو یہ قابلِ مذمت ہے یا قابل تحسین؟

انگریزوں کی غلامی نے اہلِ سیاست اور اہلِ صحافت ہی کو نہیں‘ پورے سماج کو اپنی شناخت کے باب میں حساس بنادیا تھا۔ یہ دکھ گہرا احساس بن کر سب کو اپنے حصار میں لے چکا تھا کہ ہمارا ملی وجود خطرات سے دوچار ہے۔ ندوة العلما‘ جامعہ ملیہ‘ تحریک ریشمی رومال‘ انجمن حمایت اسلام ‘ جس کی سمجھ میں جو کچھ آتاتھا‘ وہ کرگزرنے پر آمادہ تھا۔ غلط صحیح کا فیصلہ تاریخ نے کردیا کہ یہ اسی کا کام ہے۔ آدمی توکوشش کا مکلف ہے اور نیت کی پاکیزگی کا۔

آج سیاست اور میڈیا‘ دونوں محض تجارت ہیں۔ لیڈر کے لیڈر عوام ہیں۔ وہ ان کے جذبات کو دیکھتا اور لائحہ عمل کا اعلان کرتا ہے۔مقبولیت کھوجانے کے خوف میں وہ اس طرح مبتلا ہے کہ عوام سے سچ نہیں بولتا۔نجی مجالس میں وہ اظہار خیال کرتا ہے لیکن عوام کے سامنے لب کھولنے سے گریزاں ہے۔ میڈیا کا تجارتی ہونا قابل فہم ہے‘ لیکن کیا چوبیس گھنٹوں میں ایک گھنٹہ بھی اس سوچ سے آزاد نہیں ہوا جاسکتا۔ کوئی ایک پروگرام جس میں سنجیدہ فکری و سیاسی مسائل زیر بحث ہوں؟ ریٹنگ اور اشتہارات۔۔۔کیا قوم کے لیے ان کی قربانی نہیں دی جاسکتی‘صرف ایک گھنٹے کے لیے؟ پانچ برس تک ایک نجی ٹی وی چینل پر کوشش کی کہ علمی وفکری مباحث کی ریت ڈالی جائے۔ پروگرام بند ہوا اور پھر کسی کو حوصلہ نہ ہوا کہ اس چراغ سے چراغ جلائے۔ دلیل وہی۔۔۔ریٹنگ اور اشتہارات۔

سیاست دان کا کام یہ ہے کہ وہ قوم کو لائحہ عمل دے۔ وہ عوام کو بتائے کہ ان کے لیے صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔ سیاست دان اپنے تجربات اور بصیرت سے وہ کچھ جانتا ہے جس کی خبر عام آدمی کونہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر وہ بتاسکتا ہے کہ امریکی غلامی سے آزادی کیسے ممکن ہے؟ اسے معلوم ہے کہ قوموں کی تعمیر کیسے ہوتی ہے؟ وہ جانتا ہے کہ آج ہم بھارت سے ٹکرا سکتے ہیں یا نہیں؟ اسے خبر ہے کہ دنیا پر پاکستان کا انحصار کتنا اور کیسا ہے؟ وہ عوام کو سمجھا سکتا ہے کہ اس زمانے میں اپنا وجود کیسے برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ جناب شہباز شریف ہر روز ترکی کے گیت گاتے ہیں۔کیا انہوں نے اس قوم کو بتایا کہ ترکی یہاں تک کیسے پہنچا؟ عمران خان نے تو ایک عمر دیارِمغرب میں گزاری؟ کیا انہوں نے پاکستانی قوم کو بتایا کہ مغرب میں نوے دنوں کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی؟

میڈیا کا کام بھی صرف خبر دینانہیں‘ لوگوں کی سوچ اور ذوق کی تعمیر بھی ہے۔اسے بتانا چاہیے کہ وہ کیا مسائل ہیں جن کو ہمیں اپنی ترجیحات میں شامل کرنا ہے۔ ایک ٹیلی ویژن چینل پر جب میں نے سیاسی پروگرام کی میزبانی کا آغاز کیا تو چینل کے سربراہ نے کہا: کامیاب اینکر وہ ہے جو سوال اٹھائے تو لوگ کہیں:”یہی تو ہمارے ذہن میں تھا؟“۔ میں نے کہا‘ مجھے اتفاق ہے لیکن اس کے ساتھ ایک بات اور بھی ہے۔ میزبان کو ایسے سوالات اٹھانے چاہیے کہ لوگ سوچنے لگیں۔ ”اچھا! اس معاملے کو دیکھنے کا ایک زاویہ یہ بھی ہے؟“۔ ذوق کا معاملہ یہ ہے کہ علم اور زبان‘ ایک میزبان کے انتخاب میں دونوں کی اہمیت نہیں۔اُردو کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جارہا ہے‘ اس پر ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین نے کہا تھا اُردو زبان اس پر ناز کرے گی کہ وہ ابوالکلام کے قلم سے لکھی اور ان کی زبان سے بولی گئی۔ ہمارے ٹاک شوز کو دیکھ کر اُردو جو مرثیہ کہتی ہوگی‘ میں اس کا اندازہ کرسکتا ہوں۔ اب تو نسوانی چہروں پر اصرار ہے کہ مغرب کے تجارتی اخلاقیات کا درس یہی ہے۔

قوم کا مستقبل سیاسی وفکری اشرافیہ کے ہاتھ میں ہے۔ سیاست دان اور میڈیا آج ان کے نمائندہ ہیں۔ اگر یہاں اصلاح کا دروازہ کھل جائے تو قومی اصلاح کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔

Leave a comment

Filed under Uncategorized

Leave a comment